08-Mar-2022 لیکھنی کی کہانی -
آج آٹھ مارچ ہے، خواتین کا عالمی دن، پچھلے چند برسوں سے ہمارے ہاں اس روز مختلف بڑے شہروں میں عورت مارچ نکالا جاتا ہے۔اس مارچ میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں، سوشل ایکٹوسٹ،سول سوسائٹی گروپس، این جی اوز وغیرہ مل کر شامل ہوتی ہیں۔ مختلف سلوگن، پوسٹر، بینر وغیرہ بنائے اور لہرائے جاتے ہیں۔ میڈیا پر اس کی بھرپور تشہیر ہوتی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی عورت مارچ کا متنازع بن جانا۔ میڈیا کی فطرت ہے کہ وہ ہر تنازع کی طرف لپک کر جاتا ہے کیونکہ تنازع، لڑائی ، سنسنی زیادہ سے زیادہ ناظرین کو سکرین سے چپکنے پرمجبور کرتی ہے ، یوں زیادہ ریڈنگ زیادہ کمائی۔ دوسری وجہ اس میں شامل ہونے والی خواتین کی اکثریت کا ایک خاص کلاس سے تعلق ہے۔مغربی لباس میں ملبوس چمکتے دمکتے چہرے جنہیں میڈیا کا کیمرہ پسند کرتا ہے۔
عورت مارچ کے حامی حلقوں کا ایک حصہ لبرل، سیکولر، مذہب بیزار ، اینٹی مولوی ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ، اینٹی اسلامی مشرقی اخلاقیات سوچ رکھنے والوں کی ہے۔ایسے معتدل لوگ بھی ہیں جو خود کو لبرل ، سیکولر کہلانا پسند نہ کریں، مگر اپنی نرم دلی یا حقیقت پسندی کی بنا پر انہیں مظلوم خواتین سے ہمدردی ہے اور وہ ان کے لئے آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف عورت مارچ کے مخالفین یا ناقدین کی بڑی تعداد روایتی مذہبی، اعتدال پسند یا اینٹی لبرل سیکولر حلقوں کی ہے۔ عام آدمی بھی جو سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے چند ایک متنازع نعروں کے پوسٹر دیکھ چکا ہے، اس کی منفی رائے میں بھی شدت ہے۔ ایسے لوگ پورے یقین سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مارچ صرف لبرل ایجنڈے کے لئے کیا جاتا ہے اور مقصد فحاشی پھیلانا اور مذہبی احکامات کا تمسخر اڑانا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ایسے بہت سے ایشوز ہیں۔ جن کے حل کے لئے بھی مشترکہ جدوجہد ہوسکتی ہے۔مثال کے طور پر خواتین کے موروثی جائیداد میں حق پر کون مخالفت کرے؟ لبرل ، سیکولر گروپ ہوں یا مذہبی لوگ ان سب کی ایک ہی رائے ہے کہ جائیداد میں بہنوں، بیٹیوں کا حصہ یقینی بنایا جائے اور یہ کام ریاست ایسے موثر انداز میں کرے کہ خواتین کو عدالت جا کر اپنی جنگ نہ لڑنی پڑے۔ ورکنگ ویمنز کے لئے ہراسمنٹ قوانین پر ہر حلقہ فکر میں اتفاق رائے ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا لبرل این جی اوز ان میں سے ہر کوئی یہی کہے گا کہ خواتین کو گلی محلے، سڑک، ٹرانسپورٹ اور دفاتر میں تنگ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہو۔ایسے ملزموں کو سخت سزائیں ملیں وغیرہ۔خواتین کے لئے الگ ٹرانسپورٹ کی کون مخالفت کرے گا؟ کوئی نہیں۔ ہر کوئی یہ چاہے گا کہ ہماری بچیاں محفوظ اور آرام دہ طریقے سے تعلیمی اداروں، دفاتر وغیرہ سے گھر پہنچیں۔ زچگی کے حوالے سے چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں خواتین کو جو مسائل ہیں، نوزائیدہ بچوں کے طبی مسائل وغیرہ.... ڈومیسٹک وائلنس یا گھریلو تشدد کے حوالے سے ایک نکتہ پر تو اتفاق رائے ہوگا کہ عورت کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے،
خواتین کے اہم ایشوز میں سے اسی نوے فیصد پر اتفاق رائے قائم کیا جا سکتا ہے ۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ عورت مارچ میں جماعت اسلامی کی خواتین بھی شامل ہوں، پیپلزپارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف وغیرہ کی ویمن تنظیمیں اور ہر قسم کے سول سوسائٹی گروپ، این جی اوز بھی اس کا حصہ ہوں۔ عورت خواہ رائٹ ونگ کی ہو یا لبرل ، سیکولر یا کسی بھی کلاس کی، اس کے مسائل موجود ہیں، ان کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ بہرحال کچھ مسائل ان سب میں مشترک ہیں۔ ان پر مشترک جدوجہد کی جائے تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
ایک بڑی وجہ تنازع متنازع نعرے بھی ہیں۔ میرا جسم میری مرضی ایسا ہی ایک نعرہ ہے۔ اس کی ایک تعبیر وتشریح عورت مارچ والے کرتے ہیں، جبکہ مخالفین کی تعبیر وتشریح مختلف ہے۔ دراصل عورت مارچ کے مظاہروں میں ایک الٹرالبرل حلقہ بھی شامل ہوجاتا ہے، جن کے نعروں میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کی جدوجہد بھی شامل ہے۔ LGBTکے رنگ والے جھنڈے یا قانو ن توہین رسالت کے خلاف لکھے بینروں کا عورت مارچ سے کیا تعلق؟ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی دوسرے سلوگن متنازع ہوجاتے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر ویسے عورت مارچ منتظمین کو غور کرنا چاہیے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت پر تیزاب پھینکا جائے، اسے گھریلو تشدد کا نشانہ بن بنایا جائے،طلاق دے کر خالی ہاتھ گھر سے نہ نکالا جائے،چولہا پھٹنے کا بہانہ کر کے جلایا نہ جائے .... تو اس کے لئے نیا نعرہ وضع کریں۔ جن مظالم کی بات کی ہے ، ان میں میرا جسم میری مرضی کے الفاظ فٹ نہیں ہوتے۔ یہ الفاظ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ یہ جسمانی ضرورت یعنی سیکس کے حوالے سے پرسنل چوائس کی بات ہو رہی ہے۔ میرا جسم ہے، میری مرضی ہے، جس طرح چاہوں اسے برتوں۔
عورت پر مظالم صرف جسم پر نہیں ہوتے بلکہ پوری ذات پر ہوتے ہیں۔ بیشتر جرائم میں جسم سے زیادہ روح چھلنی ہوجاتی ہے۔ ٹارچر صرف جسمانی نہیں بلکہ بہت بارذہنی ہوتا ہے۔ اس لئے جسم کے بجائے ذات یا شخصیت کی بات کرنی چاہیے۔ اگر” میری ذات میری مرضی“کی بات کی جائے تو اس سے وہ منفی تاثر نہیں ملتا۔ ممکن ہے انہیں پہلے سے کئی گنا زیادہ موثر اور بھرپور پزیرائی ملے۔